عام معلومات:
خندق ان مستطیل گڑھوں کا نام ہے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ مسلمانوں نے مدینہ کو مشرکین قریش اور ان کے ساتھ اتحادی قبائل سے بچانے کے لیے کھودا تھا۔دونوں طرف سے ہونے والی لڑائی کو “غزوة الأحزاب” )فریقین کی لڑائی( کہا جاتا ہے،قرآن نے دونوں لشکروں کے افراد اور ان کے رد عمل کی تفصیلات، اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فتح،جس نے توازن کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا، اس سب کو ابد کے لیے محفوظ کردیا۔ یہاں تک کہ(اس عظیم فتح سے متعلق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین کے مایوس لوٹنے کے بعد فرمایا: اب ہم ان پر حملہ کریں گے اور وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے، ہم ان کی طرف جائیں گے ۔ اور وہ ہجرت کا پانچواں سال تھا ۔
خندق جنگ کا ایک طریقہ ہے:
رسول اللہ کے دشمنوں میں سے یہود خیبر اور بنو نضیر اور ان کے حلیف غطفان اور فزارہ، مشرکین قریش اور ان کے حلیف کنانہ اور اہل تہامہ ، کے ساتھ ، اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ایک رائے پر متفق ہوگئے، چنانچہ دس ہزار جنگجو جمع ہوگئے اور بعد میں بنو قریظہ مسلمانوں سے عہد شکنی کے بعد ان کے ساتھ مل گئے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا تو صحابی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خندق کھودنے کی جانب توجہ دلائی اور یہ بات عربوں میں معروف نہ تھی کیونکہ یہ ایک طریقہ تھا جو اہل فارس اپنے ملک میں کیا کرتے تھے جب دشمن ان پر حملہ کرتے۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےمشورہ سے شمالی سمت میں کھدائی کی کیونکہ یہ جانب کشادہ تھی جبکہ مدینہ کی باقی سمتیں پہاڑ، پتھریلی چٹانوں، کھیتوں اور آپس میں جڑے مکانات کی وجہ تھیں۔خندق کا مقام اور
اسکاطول و عرض:
خندق شہر کے شمال میں مسجد نبوی سے تقریباً 2500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
خندق مشرقی حرہ سے مغربی حرہ تک پھیلی ہوئی ہے اور اس کا آغاز شیخین کے علاقے سے ہوتا ہے۔
یہ خندق عثمان بن عفان روڈ پر واقع الرایہ مسجد کے شمال سے گزرتی ہوئی (سلع پہاڑ) کے ساتھ گزرتی ہوئی ، جہاں آج الفتح مسجد ہے، مذاد کے علاقے پر ختم ہوتی ہے۔
خندق کی لمبائی تقریباً 5544 میٹر ہے، اس کی چوڑائی 4 یا 5 میٹر کے قریب ہے، اور اس کی گہرائی 3 میٹر ہے، یہ بات قابل غور ہے کہ خندق کی مٹی نے مسلمانوں کے جانب ایک آڑ سی بنا دی تھی۔
خندق بطورایک تاریخی مقام:
خندق کافی عرصہ پہلے ختم ہو چکی تھی، اور کچھ یادگاریں جو اپنے اندر(عظیم) معنی رکھتی ہیں اور ان لافانیواقعات کی یاد دلاتی ہیں، باقی رہ گئی، جن میں سے سب سے اہم یہ ہیں: